مصنفین

مصنفین
سیرت شافعی محشر پرقلم اٹھانا سعادت کی بات ہے۔ ان خوش نصیب ہستیوں کے بارے اس فہرست میں معلومات اکھٹی کی گئی ہیں۔ "لنک" کے بٹن پر کلک کرنے سے آپ کے سامنے تفصیلی صفحہ کھل جائے گا۔ سرچ باکس میں کچھ لکھنے سے اس سے متعلق دستیاب معلومات فورا ظاہر ہو جائیں گی۔ ہر کالم کی ہیڈنگ کے ساتھ دیے گئے^ اور ͮکےنشانات پر کلک کرنے سے پورے ٹیبل کی انٹریز اس کالم کے لحاظ سے نزولی یا صعودی ترتیب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔


آئی ڈیاسم گرامیزمانہمختصر تعارفلنک
حوالہ:MA-01 ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھمشہور محدث تھے جنھوں نے بخاری کی شرح لکھی۔آپ نامور مؤرخ اورشافعی مذہب فقیہ تھے۔لنک
حوالہ:MA-02 ابن سید الناس بصری متوفی 734ھمحدث، فقیہ، مؤرخ اور مشہور سیرت نگار تھےلنک
حوالہ:MA-03 ابو الحسن علی بن احمد سمہودی متوفی 911ھامام سمہودی تاریخ اسلام کے ایک نامور امام، فقیہ، مدینہ منورہ کے مؤرخ اور مفتی تھے۔لنک
حوالہ:MA-04 احمد بن محمد بن ابوبکر قسطلان متوفی 923ھامام قسطلانی عالم، مفسر، محدث، فقیہ، محدث، مؤرخ، سیرت نگار تھے۔ آپ عموماً شارح صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہیں۔لنک
حوالہ:MA-05 محمد بن اسحاق [صاحب المغازی متوفی 150ھ آٹھویں صدی کے قدیم ترین سیرت نگار ہیں جن کی مشہور کتاب سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیرت ابن اسحاق کے نام سے مشہور ہےلنک
حوالہ:MA-06 مسلم بن حجاج قشیری [مصنف مسلم شریف] متوفی 261ھ امام مسلم کے نام سے معروف ہیں، محدثین کرام میں جو بلند پایہ رکھتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔لنک
حوالہ:MA-07 معمر بن راشد متوفی 150ھمعمر بن راشد عالم یمن اپنے وقت کے عظیم شیخ و محدث تھے۔لنک
حوالہ:MA-08ابان الاحمرؒ 200ھابو حذیفہ اسحاق بن بشیر بن محمد البخاری بلخ میں پیدا ہوئے لیکن بخارا میں مستقل طورپر قیام کیا اور یہیں فوت ہوئے۔آپ محمد بن اسحاق ،عبد الملک بن جریج ،امام مالک اور سفیان ثوری ؒکے شاگرد ہیں ۔ابو حذیفہ کی تصانیف میں “کتاب المبتداء ” اور “کتاب الفتوح ” قابل ذکر ہیں ۔”کتاب الفتوح ” کے بےشمار حوالے یاقوت الحموی کی “معجم البلدان “اور علامہ ابن حجر کی “الاصابہ ” میں ملتے ہیں۔لنک
حوالہ:MA-09ابان بن عثمانؒ20-105ھآپ خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے ۔آپ سیرت نگاری اور مغازی کے علاوہ فقہ اور حدیث کے بھی بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔حضر ت ابان بن عثمان نے جو روایات حضرت مغیرہ سے نقل کی تھی وہ محض صحیفوں کی صورت میں تھی اور ان میں رسول اکرم ﷺ کی سیرت کے متعلق روایات جمع کی ہوئی تھیں لیکن آپ کے ان صحیفوں سے ہم تک کچھ نہیں پہنچا ۔لیکن پھر بھی حضرت ابان کا شمار ان فقہاء میں سے کیا جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے فن مغازی کا مجموعہ فراہم کیا ۔لنک
حوالہ:MA-10ابن الدیبع الزبیدیؒ866ھ-944ھعبد الرحمان بن علی بن محمد الشیبانی عرب کے جنوب علاقہ کے نہایت عمدہ مؤرخین میں سے تھے ۔سیرت طیبہ کے موضوع پر آپ نے “حدائق الانوار ومطالعۃ الاسرار فی سیرت النبی المختار” کے نام سے موسوم کر کے ایک کتاب تالیف کی جو کہ بہت مشہور ہوئی۔لنک
حوالہ:MA-11عروہ بن زبیر تابعی متوفی 92ھعروہ بن زبیر بن العوام ((عربی: عروة بن الزبير بن العوام الأسدي)‏) کا شمار تابعین کے دور میں مدینہ منورہ کے سات فقہا میں ہوتا ہے۔ وہ صحابی زبیر ابن العوام کے بیٹے تھےلنک
حوالہ:MA-12علاء الدین البغدادیؒ678ھ-741ھابو الحسن علی بن محمد بن ابراہیم علاء الدین نے سیرت نبویہ ﷺ پر مطول کتاب مرتب کی۔صاحب معجم المؤلفین نے اس کتاب کو “سیرۃ خیر الخلائق محمد المصطفی سید اھل الصدق والوفاء ” کے نام سے موسوم کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-13علامہ راشد الخیری1868-1936عآپ دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبد الواجد تھا ان کے مورث اعلیٰ کا نام مولانا ابولخیر اللہ تھا جو شاہجہان کے عہد میں عرب سے آئے تھے، اس لیے یہ اپنے نام کے ساتھ خیری کا لفظ لگاتے۔ آپ بچپن میں ہی یتیم ہوگئے تھے۔ اس محرومی نے آپ کی طبیعت میں ایک گداز پیدا کر دیا تھا جس کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں آپ “مصور غم” کے لقب کے ساتھ ادبی دنیا میں معروف ہوئے۔ آپ کثیر التصانیف تھے اور آپ کی اکثر تصانیف اور رسائل کو قبول عام حاصل ہوا۔ آپ نے مولود شریف کی محافل میں ہونے والی خرافات پر خوب نقد کیا اور سیرت پر ایک خوبصورت اور مختصر تصنیف سپرد قلم کی جسے ہم “آمنہ کے لال” کے نام سے جانتے ہیں۔لنک
حوالہ:MA-14علی بن احمد الواحدیؒ 468ھ آپ کی کنیت ابوالحسن نیشابوری تھی ۔آپ شافعی مسلک کے نہایت بلند مفسر ،نحوی ،فقیہ اور مؤرخ تھے۔ آپ کی تصانیف میں سیرت سے متعلق “کتاب تفسیر اسماء النبی ﷺ”،”کتاب الدعوات”اور”کتاب المغازی ” شامل ہیں.لنک
حوالہ:MA-15علی بن برہان الدین حلبیمتوفی 1044ھآپ علامہ حلبی اور صاحب سیرت حلبیہ سے معروف ہیںلنک
حوالہ:MA-17علی بن عثمان الترکمانیؒ683ھ-750ھعلی بن عثمان الترکمانی الحنفی۔آپ فقیہ ،محدث ،مفسر ،لغوی ،شاعر اور ادیب کی حیثیت سے مشہور تھے آپ نے سیرت نبوی پر ایک کتاب تصنیف کی۔لنک
حوالہ:MA-18علی بن مجاہد بن مسلم الکندیؒ180ھآپ ابو معشر النجیح کے شاگرد تھے ۔آپ نے بھی ایک کتاب سیرت پر تحریرکی جس کا نام “کتاب المغازی “تھالنک
حوالہ:MA-19علی بن محمد المدائنیؒ225ھآپ نے سیرت طیبہ اور اس کے ضمنی موضوعات پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں ۔یا قوت الحموی نے آپ کی کتب کی ایک طویل فہرست تحریر کی ہے ۔ان تصانیف میں ایک کا نام “کتاب المغازی “ہے.لنک
حوالہ:MA-20عمار احمد0آپ کا تعلق درس و تدریس ہے۔ آپ مدرسہ عربیہ بیت المعارف الہ آباد کے صدر مدرس رہے۔ بچوں کی وقتی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ نے سیرت النبی پر ایک مختصر تصنیف “رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم” فرمائی جو کہ 157صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے ڈاکٹر محمد سعید ناشر کریمی پبلی کیشنز، الہ آباد بھارت نے 1400ہجری میں شائع کیا۔لنک
حوالہ:MA-21ابن العربیؒ 560ھ-638ھمحی الدین محمدبن علی بن محمد بن احمد المعروف ابن عربی ،مشہور فقیہ ،ادیب ،شاعر اور متکلم تھے ۔ سیرت کے موضوع پر ان کی تصنیف “محاضرات الابرارومسامرات الاحیار ” بہت مشہور ہے ۔یہ کتاب مصر سے 1973ء میں شائع ہوئی ہے ۔لنک
حوالہ:MA-22فتح الدین شہیدؒ728ھ-793ھابو الفتح محمد بن ابراہیم بن محمد فتح الدین بن شہید معروف کا تب ،فن تفسیر کے ماہر،فاضل انشاء پرداز اور شاعر تھے۔۔سیرت پر ان کی منظوم کتاب “الفتح القریب فی سیرۃ الحبیب “معروف ہیں۔لنک
حوالہ:MA-23قاری محمد طیب1898-1983عآپ کا تاریخی نام مظفرالدین تھا۔آپ دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کے پوتے تھے۔ آپ نصف صدی تک دار العلوم دیوبند کے مہتمم رہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانی و پہلے صدر تھے۔ آپ جمعیۃ تبلیغ السلام صوبۂ متحدہ کانپور کے 1941 میں نائب صدر بھی رہے[.آپ کے اساتذہ میں علامہ مشہور علمائے دین علامہ علامہ سید انور شاہ کشمیری، مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی، مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا اصغر حسین جیسے جید علما شامل ہیں۔ آپ شیخ الہندسے بیعت ہوئے اور ان کے وصال کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی نے آپ کو خلافت سے نوازا۔ آپ کثیر التصانیف تھے۔ آپ نے سیرت النبی پر “شان رسالت”، “خاتم النبیین”، اور “آفتاب نبوت” ہیں۔ آپ کی نماز جنازہ دار العلوم دیوبند کے احاطہ میں آپ کے بیٹے مولانا محمد سالم قاسمی نے پڑھائی۔ ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کے جسد خاکی کو آپ کے جد امجد اور بانئ دارالعلوم دیوبند محمد قاسم النانوتوی کی قبر کے قریب دفن کیا گیا ے۔لنک
حوالہ:MA-24قاضی عیاض مالکی متوفی 544ھقاضی عیاض نے مختلف علوم پر بیس کے قریب کتب تالیف کیں مگر ان کی شہرت ان کی تالیف الشفاء بتعریف حقوق المصطفی کی وجہ سے ہے۔لنک
حوالہ:MA-25قاضی غلام مہریمتوفی 1296ھمصباح المجالس آپ کی تصنیف ہے۔ یہ منظوم سیرت مصطفٰے ہے۔ آپ نے مصباح المجالس کی تکمیل 1260ہجری میں کر لی تھی۔ البتہ یہ کتاب پہلی دفعہ 1312ہجری میں شائع ہوئی۔ کتاب قبولیت عامہ حاصل ہوئی چنانچہ 1322ہجری اور 1323ہجری میں دوبارہ اور سہ بارہ شائع ہوئی۔لنک
حوالہ:MA-26قاضی محمد سلیمان منصور پوری1867-1930ابتدائی تعلیم والد قاضی احمد شاہ سے حاصل کی۔ والد ریاست پٹیالہ میں نائب تحصیلدار تھے سترہ سال کی عمر میں مہندرا کالج پٹیالہ سے منشی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے۔ اس کے بعد انہوں نے ریاست پٹیالہ میں محکمہ تعلیم ،مال اوردیوانی میں ملازمت اختیار کی۔ اپنی قابلیت و صلاحیت ترقی کرتے ہوئے 1924ء میں سیشن جج مقرر ہو گئے ۔سید البشر، اسوہ حسنہ، مہر نبوت، رحمۃ للعالمین، اصحاب بدر، الجمال والکمال، معارف الاسماء، تاریخ المشاہیر، سبیل الرشاد آپ کی تصانیف میں سے ہیں۔لنک
حوالہ:MA-27قیصر الجعفری1926-2005عآپ کا اصل نام زبیر احمد جعفری تھا لیکن ادبی دنیا میں آپ اپنے قلمی نام قیصر الجعفری سے متعارف ہوئے۔ آپ اصلا غزل کے شاعر تھے اور آپ کی غزل “دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے” نے آپ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ “رنگ حنا”، “سنگ آشنا” اور “دشت بے تمنا” آپ کی شاعری کے مشہور مجموعے ہیں۔ آپ کی کہی ہوئی نعتوں کے مجموعے “نبوت کے چراغ” کی اشاعت کے بعد آپ کو نعت گو شعرا میں قدرومنزلت حاصل ہوئی۔ آپ کے کلام کی بالیدگی کو دیکھتے ہوئے مولانا محمد یوسف امیر جماعت اسلامی ہند کی خواہش آپ تک پہنچائ گئی کہ عوام الناس کو سیرت سے روشناس کرانے کے لیے سیرت کو منظوم انداز میں پیش کریں۔ اس کے نتیجے میں آپ کے مجموعے “چراغ حرا” کا ظہور ہوا۔لنک
حوالہ:MA-28مجد الدین ابن تیمیہؒ 590-652ھمجد الدین عبد السلام بن عبد اللہ بن تیمیہ ﷫نے “المنتقی من اخبار المصطفی ﷺ”کے نا م سے سیرت کے موضوع پر کتاب لکھی ۔یہ 1393ھ بمطابق 1974ء میں دار الفکر بیروت سے دوسری مرتبہ شائع ہوئی ہے ۔لنک
حوالہ:MA-29محمد بن اسحاقؒ 85-151ھآپ کا شمار مدینہ منورہ کے تابعین میں سے ہوتا ہے۔ علامہ ابن اسحاق کو اللہ رب العزت نے سیرت نگاری اور فن مغازی میں اس قدر کمال مہارت دی کہ آپ مغازی رسول کے امام کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ امام شافعی رحۃ اللہ علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ” من اراد ان یتبحر فی المغازی فھو عیال علی ابن اسحاق۔“[19]ترجمہ: ”جو مغازی میں وسیع علم چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ابن اسحاق پر انحصار کرے “۔ علامہ ابن اسحاق کی مرتب شدہ تصنیف “کتاب المغازی والسیر”،”کتاب السیرۃ والمبتداء والمغازی”اور” کتاب المغازی ” تینوں ناموں سے معروف ومشہور ہے ۔یہ تصنیف ہم تک اپنی اصل حالت میں نہیں پہنچ پائی البتہ ابن ہشام نے آپ کی سیرت کو کافی حد تک اپنی کتاب سیرت ابن ہشام میں محفوظ کیاہوا ہے ۔لنک
حوالہ:MA-30محمد بن جریر طبری متوفی 310ھطبری کی تصانیف میں سے تفسیر طبری اور  تاریخ طبری مشہور ہیںلنک
حوالہ:MA-31محمد بن سعد متوفی 230ھآپ بصرہ میں پیدا ہوئے لیکن ابتدائی تعلیم کے بعد بغداد آ گئے اور سکونت بغداد میں اختیار کی۔ اپنی تالیف طبقات ابن سعد المعروف الطبقات الکبیر (جو طبقات الرجال پر مستند کتاب ہے) کی وجہ سے مشہور ہوئے۔لنک
حوالہ:MA-32ابن المبردؒ 840ھ-909ھیوسف بن حسن بن احمد بن حسن الصالحی جمال الدین ابن المبرد۔آپ صالحیہ دمشق میں فقہ حنبلی کے عظیم فقیہ تھے۔ سیرت پر آپ کی “الدرۃ المضیۃ والعروس المرضیۃ فی السیرۃ ” ایک مشہور تصنیف ہے۔”العقد التام فیمن زوجۃ النبی علیہ الصلاۃ والسلام “بھی آپ کی تصنیف ہے۔لنک
حوالہ:MA-33محمد بن شہاب زہری متوفی 124ھ ساتویں صدی کے مسلم راوی ہیں جنھوں نے سیرت نبوی کے روایتی مواد کو محفوظ کرنے کے لیے جمع کیا۔لنک
حوالہ:MA-34محمد بن صالح بن دینار التمارؒ 168ھ آپ عاصم بن عمر بن قتادہ اور امام زہری کے شاگرد تھے اور علامہ واقدی کے استاذ تھے آپ لوگوں کو مغازی کی تعلیم دیتے تھے۔[لنک
حوالہ:MA-35محمد بن عبد الرحمان بن نوفل المدنیؒ 131ھآپ کثیر الحدیث تھے ۔محدثین نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے ۔آپ نے ایک تالیف کی جس کا نام “کتاب المغازی ” تھا۔لنک
حوالہ:MA-36محمد بن عمر الواقدی [صاحب المغازی] متوفی 207ھالواقدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اِن کی نسبت ” الواقدِی” اپنے دادا ” الواقد الاسلمی” کے نام سے ہے جو مدینہ منورہ میں بنو اسلم کے ایک گندم فروش عبد اللہ بن بریدہ کے غلام تھےلنک
حوالہ:MA-37محمد بن مسلم بن شہاب زہریؒ87-124ھعلامہ شہاب زہری کا شمار مدینہ منورہ کے بلند پایہ تابعین میں ہوتا تھا۔۔آپ کو تفسیر ،فقہ ،حدیث ،مغازی ،تاریخ ،اور سیر کی ترتیب وتدوین کے حوالے سے بہت شہرت حاصل تھی ۔امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں شہاب زہری جیسا محدث او رفقیہ نہیں دیکھا۔ رسول اکرم ﷺ کے مغازی پر آپ نے ایک کتاب لکھی جو کہ ”المغازی النبویۃ “ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔لنک
حوالہ:MA-38محمد حسین ہیکل1888-1956مصری شاعر، مصنف، ادیب اور سیاست دان تھے۔20 اگست 1888ء بمطابق 12 ذو الحج 1305ھ میں حنين الخضراء مصر۔ میں پیدا ہوئے۔قاہرہ میں لا اسکول الخدویہ میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1909. میں گریجویشن مکمل کی 1912ءمیں فرانس میں سوربون یونیورسٹی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی1923 میں اس قانون ساز اسمبلی کے وزیر تعلیم رہے جس نے صدارتی نظام کا قانون تیار کیا جو مصر کا پہلا آئین شمار کیا جاتا ہے اس کے بعد 1940 سے 1942 تک دوبارہ وزیر رہے اور 1945 میں سماجی امور کی وزارت دی گئی۔۔ لبرل پارٹی کے ڈپٹی اور صدر کے عہدوں پر کام کرتے رہے۔ سعودی عرب میں جب عرب ریاستوں کی لیگ کے چارٹر پر دستخط کیے گئے تو اقوام متحدہ میں مصری وفد کے سربراہ کے طور پر شامل تھے۔ آپ کی تصانیف میں The life of Muhammad, The Life of Abubakar, The life of Umar Alfarooq, Home of Revolution قابل ذکر ہیں۔لنک
حوالہ:MA-39محمد صبغت اللہ1280-1211ھآپ جنوبی ہند کے معروف عالم دین تھے۔ آپ کو امام العلماء، قاضی الملک مفتی بدرالدولہ کے نام سے جانا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے خاندان کو جنوبی ہند میں وہی مقام و مرتبہ حاصل تھا جو کہ شمالی ہند میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے خاندان کا تھا۔ آپ نے عربی اور فارسی میں متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں۔آپ کی تصنیف “فوائد بدریہ” سیرت النبی پر اردو کی اولین نثری تصنیف ہے۔لنک
حوالہ:MA-40محمد عنایت اللہ سبحانی1947آپ “گونڈہ” میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرستہ الاصلاح سرائے مہر اعظم گڑھ میں پائی۔ امام محمد یونیورسٹی ریاض سے پی ایچ ڈی کی۔ جامعتہ الفلاح اعظم گڑھ کے مدرس اور پرنسپل رہے۔ اردو اور عربی میں یکساں مہارت کے ساتھ آپ کی درجن بھر کتب شائع ہو چکی ہیں۔ سیرت پر محمد عربی آپ کی تصنیف خاص ہے۔لنک
حوالہ:MA-41محمد ولی رازی0مولانا محمد ولی رازی پاکستان کے معروف عالم دین ہیں۔ آپ مفتی محمد شفیع کے بیٹے اور مفتی رفیع عثمانی مرحوم اور مفتی تقی عثمانی کے بھائی ہیں۔قیام پاکستان کے وقت آپ عمر 13 ،12 برس تھی۔آپ نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامی علوم میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کیا۔ آپ روزنامہ امت میں روشن جھرو کے کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔آپ کا نمایاں اعزاز سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی پہلی اردو معرّا غیر منقوط کتا ب ہادیٔ عالم ہے[1]لنک
حوالہ:MA-42معتمر بن سلیمان بن طرخانؒ 106-187ھیمن کے رہائشی تھے ۔علامہ واقدی کی “کتاب المغازی ” میں اس کا آخری جز معتمر بن سلیمان کی مغازی سے ہی نقل کیا گیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-43ابن الوزیر الحنفی ؒ 844ھ-920ھآپ کا نام عبد الباسط بن خلیل الحنفی تھا۔ اپنے عہد کے نہایت بلند پایہ مفسر ،مؤرخ اور لغوی تھے ۔ سیرت نبویﷺ پر آپ کی “غایۃ السول فی سیرۃ الرسول ” نہایت شاندار تصنیف ہے۔لنک
حوالہ:MA-44معمر بن راشدؒ 92-153ھ آپ اپنے زمانے کے مشہور محدث اور مؤرخ تھے ۔ آپ نے مغازی کی تدوین کے ساتھ ساتھ سیرت رسول کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا اور تمام روایات کو یکجا کرکے جمع کیا ۔آپ کےمتعلق جوزف ہورتس کہتےہیں:معمر نے مغازی کو محدود معنوں میں نہیں رکھا ہے بلکہ قدیم انبیاء اور اہل کتاب کی تاریخ کی طرف بھی توجہ دی ہے ۔اس طرح انہوں نے رسول اللہﷺ کی ہجرت سے پہلے کی تاریخ پر مواد فراہم کیا ہے۔مزید برآں ابن سعد اور طبری﷭ کی تاریخوں میں معمر کے حوالے سے عہد عثمان اور معاویہ کے اہم واقعات نقل ہوئے ہیں۔لنک
حوالہ:MA-45مغلطائیؒ762ھاابو عبد اللہ علاء الدین مغلطائی﷫ نے “الزھر الباسم فی سیرۃ ابی القاسم ” کے نام سے سیرت نبوی پر ایک کتاب لکھی ۔اس کا قلمی نسخہ لیڈن کی لائبریری میں موجود ہے ۔علامہ مغلطائی نے “الزھر الباسم “کو مختصر کر کے اس کے ساتھ خلفاء کی تاریخ شامل کی اور اس کتاب کو “الاشارہ الی سیرۃ المصطفی وآثار من بعدہ الخلفاء ” کے نام سے موسوم کیا۔لنک
حوالہ:MA-46مفتی شمس الدین احمد0شمع ہدایت مفتی شمس الدین احمد کی تصنیف ہے جسے مکتبہ ذکرٰی دہلی نے 1998میں شائع کیا۔554صفحات پر اس کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-47مفتی محمد رفیع عثمانی1936-2022عآپ کا محمد د رفیع  مولانااشرف علی تھانوی نے رکھا۔ آپ کے والد کے والد مفتی محمد شفیع  دار العلوم دیوبند کے مفتی اور تحریک پاکستان کی سرخیل شخصیات میں سے ایک تھے۔آپ مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔ آپ دارالعلوم دیوبند، جامعہ پنجاب اور دار العلوم کراچی کے فاضل تھے۔ آپ عالم دین اور فقیہ تو تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ آپ نے  دار العلوم کراچی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پاکستان علماء کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی اور حکومت سندھ کی زکوٰۃ کونسل کے رکن رہے. شرعی عدالتی بنچ، عدالت عظمیٰ پاکستان کے مشیر اور این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ رکن، وفاق المدارس العربیہ کی مجلسِ منتظمہ و مجلسِ ممتحنہ کے رکن بعدازاں سرپرست رہے۔ آپ کو مفتی اعظم پاکستان کا طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ آپ کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ آپ کی کتاب “آدم سے محمد تک”پاک و ہند میں کئی مرتبہ چھپ چکی ہے جس میں انبیاء کرام کے حالات زندگی کا مختصر تذکرہ کیا گیاہے۔لنک
حوالہ:MA-48مفتی محمد عنایت احمد 1813-1863عآپ تحریک آزادی ہند کے ممتاز مجاہد تھے۔آپ نے روہیل کھنڈ کے نواب بہادر خان کی تنظیمِ حریت کو مضبوط کرنے، انگریزوں کے خلاف جہاد کی موافقت میں اور نواب کی حکومت کی مالی امداد کے لیے فتویٰ دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں آپ پر مقدمہ چلا کر کالا پانی کی سزا دے کر جزیرہ انڈمان بھیج دیا۔آپ نے چار سال تک ایامِ اسیری کی مشقتیں جھیلیں۔ ایک انگریز نے تقویم البلدان کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی جسے انہوں نے قبول کیا اور دو سال کی مدت میں اسے پایہ تکمیل تک پہچایا۔ یہی علمی کام ان کی رہائی کا سبب بن گیا اور 1277ھ بمطابق 1860ء میں وہ جزیرہ انڈمان سے رہا ہو کر ہندوستان واپس آئے۔کالا پانی میں ہی آپ نے سیرت النبی پر ایک مختصر کتاب تواریخ حبیب الہٰ اور فن صرف کی کتاب علم الصیغہ تحریر کی ۔ لنک
حوالہ:MA-49مناظر احسن گیلانی1892-1953آپ کی ابتدائی تعلیم رسم بسم اللّٰہ سے لے کر اردو، فارسی اور ابتدائی عربی تک گھر پر ہوئی، جس کا وافر حصہ اپنے چچا سید ابو نصر گیلانی سے پڑھا۔چودہ سال کی عمر میں آپ  ٹونک، راجستھان کے مدرسہ خلیلیہ، تشریف لگ گئے جہاں اگلے ً آٹھ سال برکات احمد ٹونکی اور محمد اشرف ملتانی کے پاس معقولات اور منقولات کی دورۂ حدیث سے پہلے تک کی کتابیں پڑھیں- دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں فرسٹ ڈویژن میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔آپ نے دارالعلوم دیوبند میں صحیح البخاری اور جامع ترمذی محمود حسن دیوبندی سے صحیح مسلم انور شاہ کشمیری سے، سنن ابو داؤد شبیر احمد عثمانی پھر اصغر حسین دیوبندی سے، سنن نسائی حسین احمد مدنی سے، سنن ابن ماجہ غلام رسول ہزاروی سے اور موطأ امام مالک و موطأ امام مالک عزیز الرحمن عثمانی سے پڑھی۔زمانۂ طالب علمی میں آپ کو شیخ الہند کے شرفِ تلمذ کے ساتھ ساتھ ان سے بیعت ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی. ۔آپ عثمانیہ یونیورسٹی میں مختلف اوقات میں پروفیسر، شیخ الحدیث اور صدر شعبۂ دینیات کے مناصب پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ  مسلم یونیورسٹی، ڈھاکہ یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، اورنگل یونیورسٹی، ر بہار و پنچاب یونیورسٹی کے اگزامینر بھی رہے۔ابو سلمان شاہجہانپوری نے”مولانا سید مناظر احسن گیلانی: شخصیت اور سوانح“ کے عنوان سے آپ کی سوانح عمری لکھی ہے۔ سیرت النبی پر آپ کی تصنیف “النبی الخاتم” خاصے کی شے ہے۔لنک
حوالہ:MA-50موسی بن عقبہؒ55-141ھآپ کا شمار کبار تابعین میں سے ہوتا ہے کیونکہ آپ کو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا ۔آپ اپنے عہد کے مشہور فقیہ ،محدث اور سیرت رسول کے عالم تھے۔ مغازی رسول کے متعلق آپ کی روایات کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کی روایات میں صحت کا بڑا اہتمام پایا جاتا ہے ۔آپ کی نقل کردہ روایات میں یہ خصوصیت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے کہ آپ کم عمر اور ناسمجھ لوگوں کی مرویات سے انحراف کرتے ہیں اور پکی عمر اور فہم وفراست کے حامل راویوں سے روایت لینے کا اہتمام کرتے ہیں ۔اس اہتمام کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی مرتب کردہ تصنیف دیگر تصانیف کے مقابلہ میں مختصر اور صحت کے زیادہ قریب ہے۔ آپ کی کتاب کا قدppیم نسخہ سٹیٹ لائیبریری میں موجود ہے اور آپ کی کتاب کو جرمنی ترجمہ کے ساتھ E.Sachau نے 1904 ء میں شائع کیا۔لنک
حوالہ:MA-51مولانا محمد ادریس کاندھلوی متوفی 1394ھشیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی معارف القرآن اور سیرت مصطفی کے مصنف ہیںلنک
حوالہ:MA-52مولوی بشیر الدین احمد شریف0آپ مولوی فاضل، ادیب فاضل سی ایم اے ہائی سکول بنگلور کے استاد تھے۔ آپ نے ہائی سکول کے طلبہ و طالبات کے لیے ایک مختصر سیرت النبی بنام “ذکر جمیل” تالیف کی تھی جسے محکمہ تعلیم کرناٹک دسویں جماعت کے لیے منظور کیا تھا۔ یہ کتاب کئی سالوں تک ریاست کے بیس اضلاع میں پڑھائی جاتی رہی۔ گمان غالب ہے کہ کہ 1964ء سے قبل شامل نصاب تھی۔لنک
حوالہ:MA-53مولوی عبدالقیوم خاں0آپ ریاست میسور میں اردو کے وظیفہ یاب استاد تھے۔ آپ نے ریاست میسور کے نصاب کے مطابق چوتھی جماعت کی اردو سپلیمنٹری ریڈر “درس اخلاق” تصنیف کی جو 1970 ریاست میسور کے بیس اضلاع میں پڑھائی جاتی رہی۔ اس چالیس صفحات پر مشتمل مختصر کتاب کو نیشنل پبلشرز بنگلور نے شائع کیا تھا۔لنک
حوالہ:MA-54ابن جابر الاندلسیؒ 698ھ-780ھمحمد بن احمد بن علی بن جابر الاندلسی ۔آ پ شعر وشاعری اور عربیت کے عالم تھے ۔ ابن جابر کی تالیفات میں “العین فی مدح سید الکونین ” اور”الحلۃ السیرافی مدح خیرالوری” کا تذکرہ ملتا ہے۔ ۔صلاح الدین منجدنے ان کی کتاب “السیرۃ النبویہ والمولد النبویہ “کا تذکرہ کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-55نعیم صدیقی1916-2002مولانا نعیم صدیقی کا اصل نام فضل الرحمن تھا۔آپ خطہ پوٹھوہارکی مردم خیز دھرتی ،چکوال کے گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم قاضی سراج الدین کی نگرانی میں حاصل کرنے کے بعد قریب ہی کے ایک مدرسے سے فارسی میں سند فضیلت حاصل کی۔ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی سے کسبِ فیض کیا۔ تحریر و تقریر ہر دو میدانوں میں آپ نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی شاعری حُسن و جمال کا مرقع اور پاکیزگی و سلامت روی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔1994میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اور اپنی ساتھیوں کے ساتھ ملکر تحریک اسلامی کے نام سے ایک اسلامی انقلابی جماعت بناٸ جو پاکستان میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد کررہی ہے۔تحریک اسلامی کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔ آپ کی صحافتی زندگی کا آغاز ملک نصر اللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘سے ہوا۔ ہفت روزہ ایشیا، ترجمان القرآن، چراغِ راہ، شہاب، سیارہ میں ادارتی خدمات سر انجام دینے کے علاوہ روزنامہ تسنیم لاہور، قاصد لاہور اور جسارت کراچی اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کالم نویسی اور مضمون نگاری کرتے رہے۔ تحریک ادب اسلامی کی ابتدا 1942ء میں آپ کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوئی۔ آپ نے بیس تصانیف چھوڑی ہیں مگر آپ کو شہرت دوام اپنی تصنیف “محسن انسانیت” سے حاصل ہوئی۔لنک
حوالہ:MA-56نواب سلطان جہاں بیگم1858-1930 اسٹیٹ آف بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم (1930-1858) اپنے دور کی معروف عالمہ و فاضلہ اور   مصنفہ تھیں ۔انھوں نے ’’سیرت مصطفٰے ﷺ’’کے نام سے ایک کتا ب لکھی جو ۱۹۱۹ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ یہ کتاب  دراصل مختلف مواقع پر کی گئی ان کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ وہ تقاریر ہیں جو پرنس آف ویلز ،لیڈیز کلب بھوپال میں وقتاََ فوقتاََ ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔اس مجموعہ تقاریر میں نبی اکرم ﷺ کی ولادت سے لے کر تجہیز وتکفین تک کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔سیرت کی یہ اولین کتاب ۱۶۰ صفحات پرمشتمل ہے ۔لنک
حوالہ:MA-57نور الدین الحلبیؒ975ھ-1044ھآپ کا نام علی ابن ابراہیم بن احمد برہان الدین حلبی تھا ۔آپ مسلک شافعی سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نحوی ،لغوی ،اصولی ،فقیہ ،مؤرخ اور صوفی تھے۔ آپ کی تصنیف”انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ” بہت معروف ہے ۔یہ کتاب دو معروف کتابوں یعنی “عیون الاثر فی فنون المغازی والسیر” اور” سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد” کی تلخیص ہے ۔اور ان کتب میں آپ نے متعدد اور قابل مفید اضافے کیے ہیں۔لنک
حوالہ:MA-58نورالدین عبدالرحمٰن جامی1414-1492عآپ کا شمار نویں صدی ہجری کے نامور علما اور صوفیا میں ہوتا ہے۔ فارسی ادب میں شاعری کے حوالے سے جامی ایک جلیل القدر شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ضلع جام کے قصبہ خرد میں پیدا ہوئے اور ہرات میں وفات پائی۔ آپ ہرات اور سمرقند میں علوم اسلامی تاریخ و ادب کی تعلیم پائی۔ مختلف علوم و فنون پر آپ کی گہری نگاہ تھی۔ مورخین آپ کی تصانیف کی تعدد 54تک بیان کرتے ہیں۔ آپ کو اپنی شاعری کے مجموعے ہفت رنگ سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔ نثر میں اشعتہ اللمعات، شرح فصوص الحکم، لوامع، لوائح، ترجمعہ اربعین حدیث، شرح ملا جامی، تحفہ احرار، نغمات الانس، سلسلہ الذہب، بہارستان اور شواہد النبوۃ مشہور زمانہ ہوئیں۔لنک
حوالہ:MA-59ہشام بن عروہ بن زبیرؒ 146ھ آپ مدینہ کے مشہور محدث تھے ۔سیرت کے ذخیرہ روایات میں آپ کا بہت بڑا حصہ شامل ہے جن کو وہ اپنے والد کے واسطہ سے حضرت عائشہ ؓسے روایت کرتےتھے۔لنک
حوالہ:MA-60واقدیؒ130-207ھابو عبد اللہ محمد بن عمر بن واقد الواقدی الاسلمی المدنی ،مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔”معجم الادباء” میں آپ کی 28 تصانیف کے نام ملتے ہیں ۔ان میں “التاریخ والمغازی والمبعث “،”کتاب ازواج النبی ﷺ،”کتاب وفات النبی ﷺ،کتاب السیرۃ “،”التاریخ الکبیر “،”کتاب الطبقات”بہت اہم ہیں ۔ڈاکٹر مارسڈن جونس نے 1924ء میں “کتاب المغازی ” کا ایک عمدہ عربی نسخہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لندن اور 1966ء میں “مؤسسۃ الاعلمی “بیروت سے شائع کیا ۔ علماء کی رائے ہے کہ واقدی﷫ کی واقفیت اور تبحر علمی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مگر اس میں شک نہیں کہ ان کے تفصیلی بیانات سب مشتبہ ہیں۔اور ان میں مبالغہ آمیزی اور داستان سازی نظر آتی ہے ۔لنک
حوالہ:MA-61وہب بن منبۃؒ 34-110ھحضرت وہب بن منبہ جنوبی عرب کے شہر یمن سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ایک اور بھائی ہمام بن منبہ حضرت ابو ھریرہ کے قابل ذکر شاگردوں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے حضرت ابو ھریرہ کے مجموعہ حدیث کو جمع کیا جو ”صحیفہ ہمام بن منبہ“ کے نام سے مشہورہے ۔کشف الظنون کے مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت وہب نے مغازی کے متعلق روایات جمع کی ہوئی تھیں۔ آپ کی تصنیف “کتاب المغازی” کے بعض اجزاء جرمنی کی لائیبریری” Hadle Bargh “میں محفوظ ہے ۔لنک
حوالہ:MA-62یحیی بن سعید الامویؒ 111ھ-195ھ ابو ایوب بن سعید بن الابان الاموی الکوفی ؒنے ہشام بن عروہؒ اور محمد بن اسحاق وغیرہ سے حدیث روایت کی۔۔انہون نے “کتاب المغازی ” تصنیف کی۔امام بخاریؒ اپنی صحیح میں کتاب المغازی میں اس کے حوالے دیے ہیں۔نیز علامہ طبری نے بھی اپنی تاریخ میں اس سے استفادہ کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-63یعقوب بن ابراہیم بن سعد الزہریؒ208ھآپ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کے استاذ تھے آپ کا شمار بھی سیرت ومغازی کے نامور علماء میں ہوتا ہے ۔لنک
حوالہ:MA-64یعقوب بن عتبہ بن الاخنسؒ128ھ آپ فقیہ مدینہ اور سیرت نبوی ﷺ کے عالم تھے۔لنک
حوالہ:MA-65ابن جماعہؒ 719ھ-766ھقاضی القضاۃ عز الدین عبد العزیزبن محمد بن ابراہیم بن جماعہ الکنانی الشافعی﷫ نے سیرت پر مختصر کتاب لکھی۔لنک
حوالہ:MA-66یونس بن بکیرؒ199ھ آپ کا ذکر علامہ ذہبی نے صاحب المغازی کی حیثیت سے کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-67ابن حزم الاندلسیؒ 384-456ھ:علامہ ابن حزم کی “جوامع السیرۃ” سیرت پر انتہائی جامع اور مختصر کتاب ہے جو کہ تقریبا دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔لنک
حوالہ:MA-68ابن سعدؒ 168-230ھابو عبد اللہ محمد بن سعد الزہری البصری ۔ آپ محمد بن عمر الواقدی(207ھ)کے شاگرد تھے ،اس لیے آپ ” کاتب الواقدی “کے نام سےمعروف تھے۔”الطبقات الکبری” ابن سعد کی انتہائی مقبول تصانیف میں سے ہے ۔سب سے پہلے ایک جرمن مستشرق نے “الطبقات الکبری” کو مرتب کر کے نہایت اہتمام کے ساتھ لائیڈن سے آٹھ جلدوں میں شائع کیا ۔لنک
حوالہ:MA-69ابن سید الناسؒ671ھ-734ھسیرت کے موضوع پر ابو الفتح محمد بن محمد بن سید الناس﷫ کی معروف تصنیف کا نام “عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر” ہے ۔مؤلف نے اسے دو جلدوں میں تصنیف کیا ہے ۔یہ کتاب 1356ھ میں مصر سے شائع ہوئی ۔بعد ازاں دار الفکر اور دار الافاق الجدیدہ بیروت سے شائع ہوئی ۔لنک
حوالہ:MA-70ابن عائذ الدمشقیؒ150-233ھآپ کا نام محمد بن عائذ القرشی تھا ۔ آپ انتہائی ماہر انشا پرداز،محدث اور مؤرخ تھے ۔آپ “صاحب الفتوح والمغازی والسیر” کے نام سے مشہور تھے ۔جناب ابن سید الناس کی کتاب “عیون الاثر “کا سب سے بڑا مصدر وماخذ ابن عائذ دمشقی کی ہی “کتاب المغازی “ہے ۔اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی “الاصابۃ” میں آپ سے منسوب کر کے بے شمار روایات نقل کی ہیں ۔لنک
حوالہ:MA-71ابن عبدُ البر ؒ 368-463ھ آپ اندلس کے مشہور محدثین میں سے تھے ۔سیرت نبوی پر آپ کی نہایت مشہور ومعروف کتاب “الدر فی اختصار المغازی والسیر”ہے ۔یہ کتاب 1984ء میں بیروت کے دار الکتب العلمیہ سے شائع ہوئی ہے ۔آپ کی یہ تالیف انتہائی مختصر اور جامع ترین ہے ۔لنک
حوالہ:MA-72ابن قیم الجوزیہؒ691ھ-751ھعلامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم الجوزیہ کی کتاب “زاد المعاد فی ھدی خیر العباد” چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب سیرت بالخصوص اخلاق نبوی کے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ قابل قدر کتاب اپنی افادیت کی وجہ سے کئی بار چھپ چکی ہے ۔لنک
حوالہ:MA-73ابن کثیر ؒ701ھ-774نام عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی آپ نے موضوع سیرت پر دو کتابیں مرتب کیں” السیرۃ النبویۃ “اور “الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول “جو موضوع سیرت میں بلند مقام رکھتی ہیں۔لنک
حوالہ:MA-74ابن نقاشؒ725ھ-763ھابو امامہ محمد بن علی بن عبد الواحد بن یحیی الدکالی المصری﷫ ۔آپ فقیہ ،واعظ ،نحوی او ر شاعر تھے اور متعدد علوم پر ید طولی رکھتے تھے۔انہوں نے بھی “سیرت نبویﷺ”تالیف کی۔لنک
حوالہ:MA-75ابن ہشام ؒ 218ھآپ کا لقب ابو محمد اور آپ قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کی مشہور زمانہ تصنیف ”سیرۃ رسول اللہ ﷺ “(جو کہ سیرت ابن ہشام کے نام سے مشہورہے )قیامت تک کے لیے دنیا کے افق پر اپنا نام روشن کیے رکھے گی ۔اس کتاب کو یہ شرف حاصل ہےکہ سیرت پر یہ اول کتاب تھی جو اپنی صحیح حالت میں ہم تک پہنچی۔ ابن ہشام نے علامہ ابن اسحاق کی کتاب جو جس طرح ملخص ومہذب اور محقق اورمنقح انداز میں پیش کیا آپ کا یہ کارنامہ اتنے بلند معیار کا تھا کہ اس نے ابن اسحاق کی اصل کتاب پر خط تنسیخ پھیر دیا ۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ علامہ ابن اسحاق کی سیرت ناپید ہوتی گئی اور ابن ہشام کی تلخیص اور تہذیب ایک شہرہ آفاق تصنیف کی شکل اختیار کر گئی ۔سب سے پہلے اس کتاب کو ایک جرمن مستشرق (ویسٹن فیلڈ)نے گوئٹنگن جرمنی سے 1858ء میں شائع کیا۔اور پھر اس کتاب کے متعدد ترجمے فارسی،انگلش ،فرینچ اور اردو میں کیے گئے ۔لنک
حوالہ:MA-76ابو اسحاق الفزاریؒ 188ھابو اسحاق الفزاری اپنے زمانہ کے نامور محدث اور مؤرخ تھے ۔آپ کی مرتب کردہ تصانیف میں سے “کتاب السیر فی الاخبار” بہت شہرت کی حامل ہے ۔ اس کتاب کا قدیم مخطوطہ جامع القزوین میں موجود ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:” ابو اسحق الفزاری جیسی سیرت کسی نے بھی نہیں لکھی“ ۔لنک
حوالہ:MA-77ابو الربیع سلیمان الکلاعیؒ565ھ-634ھاابو الربیع سلیمان بن موسی بن سالم الاندلسی الکلاعی﷫ کی تصنیف “الاکتفاء فی مغازی رسو ل اللہ والثلاثۃ الخلفاء ” غزوات اور خلفاء راشدین کی جنگوں کے بارے میں ہے یہ کتاب قاہرہ سے 1970 ء میں شائع ہوئی ۔لنک
حوالہ:MA-78ابو العباس الامویؒ 119ھ-195ھابو العباس ولید بن مسلم الاموی بلند پایہ مؤرخ اور محدث تھے۔انہوں نے تقریبا 70 کتابیں تالیف کیں جن میں “کتاب المغازی ” اور” کتاب السنن” بھی شامل ہیں ۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب المغازی میں اور علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ولید بن مسلم کی مغازی سے استفادہ کیا ہے۔یہ کتاب بھی مفقود ہے ۔لنک
حوالہ:MA-79ابو جعفر الرعینیؒ 779ھابو جعفر احمد بن یوسف بن مالک الرعینی الغرناطی الاندلسی۔ ابو جعفر الرعینی نے اپنے رفیق ابن جابرکی تصنیف “الحلۃ السیراء فی مدح خیر الوری “کی شرح کی اور اسے “طراز الحلۃ وشفاء الغلۃ”کے نام سے موسوم کیا۔۔صلاح الدین المنجد نے ان کی کتاب “السیرۃ والمولد النبوی ﷺ”کا تذکرہ کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-80ابو زرعہ دمشقیؒ 280ھآپ کا نام عبد الرحمان بن عمرو تھا ۔آپ کا شمار کبار محدثین میں کیا جاتا ہے ۔آپکی مرتب کردہ “سیرۃ النبی” اور “تاریخ الخفاء الراشدین” نہایت قابل ذکر تصانیف میں سے ہیں ۔جس کے ڈیڑھ سو صفحات استنبول کے کتب خانہ “الفاتح ” میں موجود ہیں ۔یہ کتاب 1980 ء میں دمشق سے طبع ہو ئی ہے۔لنک
حوالہ:MA-81ابو سعد عبد الرحمان بن الحسن الاصبہانی النیشاپوریؒ329ھ آپ حفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں آپ نے “شرف المصطفی ” کے نام سے سیرت کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی۔لنک
حوالہ:MA-82ابو سعید عبد الملک النیشاپوریؒ 407ھآپ فقہائے شافعیہ کے بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔آپ کی تصانیف “دلائل النبوۃ “اور “شرف المصطفی “نہایت قابل ذکر ہیں ۔”شرف المصطفی “سیرت پر نہایت عمدہ کتاب ہے جوکہ آٹھ مجلدات پر مشتمل ہے۔اس تصنیف کے قلمی نسخہ جات آج بھی درالکتب الظاہریہ میں موجود ہیں۔لنک
حوالہ:MA-83ابو سعید یحیی بن سعید القطانؒ198ھآپ کی بھی تصنیف کا نام “کتاب المغازی ” ہے۔لنک
حوالہ:MA-84ابو سلیم محمد عبدالحئی1910-1987ءمولانا ابو سلیم محمد عبدالحیؒ پنجاب کے ایک نو مسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ جماعت اسلامی ہند کے دورِ اول کے عظیم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔ آپ ایک اچھے مدیر، اچھے ادیب، اور اچھے منتظم کے ساتھ ساتھ ایک بہترین منصوبہ ساز بھی تھے۔ مختلف اردو مجلات کا اجراء، ادارہ الحسنات کا قیام، افرادِ کار کی تیاری، لڑکیوں کی عظیم درسگاہ جامعۃ الصالحات کی تاسیس، اور قرآن مجید کے ہندی ترجمہ کے علاوہ ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر کی منتقلی آپ کے چند نمایاں کارنامے ہیں۔ [تعمیر نیوز]سیرت پر آپ کی مختصر تصنیف”حیات طیبہ” ہے جو آپ نے رائے بریلی جیل میں دوران نظربندی تحریر فرمائی۔لنک
حوالہ:MA-85ابو محمد عبد الرحمان بن عبد العزیز الاوسی الحنیفیؒ162ھآپ امام زہری﷫کے شاگرد تھے اور فن سیرت کے عالم تھے۔لنک
حوالہ:MA-86ابو معشر السندیؒ170ھآپ کا نام عبد الرحمان المدنی تھا آپ بحیثیت فقیہ ،محدث اور مؤرخ خاصی شہرت کے حامل تھے ۔آپ کے متعلق امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :ابو معشر السندی فن مغازی میں بصیرت کے حامل تھے۔اور خطیب بغدادی نے آپ کو مغازی کے علماء میں سے شمار کیاہے۔لنک
حوالہ:MA-87ابوالکلام آزاد1888-1958عمولانا ابوالکلام آزاد  کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ 1912 میں الہلال نکالا۔ مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے۔ آپ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ آپ کے یوم پیدائش  11 نومبر،  1888ء کو ہندوستان میں قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔ آپ کثیر التصانیف مصنف تھے جن میں سے چند یہ ہیں: ترجمان القرآن، رسول رحمت، حقیقت صلوۃ، مسئلہ خلافت، ولادت نبوی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے آخری لمحات، اسلام کا نظریہ جنگ۔لنک
حوالہ:MA-88ابوبکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الصنعانیؒ211ھ  آپ نامور محدث اور فقیہ تھے ۔حدیث میں “الجامع الکبیر “کے نام سے آپ کی معروف کتاب ہے ۔نبی کریم ﷺ کی سیرت کی جمع وتدوین میں آپ کا نام نمایاں ہے .آپ نے “السنن فی الفقہ “،تفسیر القرآن”اور”کتاب المغازی ” بھی تصنیف کی۔لنک
حوالہ:MA-89ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاریمتوفی256ھمشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھےلنک
حوالہ:MA-90احمد بن فارس بن زکریا اللغویؒ329ھ آپ کا شمار نامور فقہاء شافعیہ میں ہوتا ہے آپ نے کتاب “تفسیر اسماء النبی ﷺ”،سیرۃ النبی ﷺ”اور “اخلاق النبی ﷺ “جیسی کتب تصنیف کیں ۔لنک
حوالہ:MA-91احمد سعید0مولانا کا شمار عصر حاضر کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے آپ نے “سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم” کے علاوہ کشف الرحمٰن اور “رسول کی پیاری باتیں” کے نام سے بھی تصنیفات کی ہیں۔ سیرت محمد انھوںے نے 1988میں لکھی جو 136صفحات پر مشتمل ہے اس میں انہوں نے پچانوے ذیلی عنوانات ترتیب دیے ہیں۔ ان تمام عنوانات کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-92احمد یار خاں نعیمی1904-1971آپ کا شمار بیسویں صدی کے مقتدر علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ مفسر اور مفتی تھے اور آپ نے حضور صلوٰۃ و سلام کی ذات گرامی قدر پر اعتراضات کے اپنی تحریروں اور تقاریر کے ذریعے پراثر اور جامع جوابات دیے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو “عظیم مناظر” کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ “سلطنت مصطفٰے، درمملکت کبریا، صحابہ پیغمبری، سراۃ المناجیح، مشکوٰۃ المصابیح اور شان حبیب الرحمٰن مع آیات القرآن آپ کی مقبول تصانیف ہیں۔ مولانا سید ابو البرکات احمد کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اور بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدام الصوفیہ اور دس برس انجمن خدام الرسول میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔لنک
حوالہ:MA-93اشرف علی تھانوی1863-1943عآپ ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ تھانہ بھون میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ دادھیال کی طرف سے فاروقی اور ننھیال کی طرف سے علوی ہیں۔ آپ کی خدمات دینیہ کا ایک عالم گواہ ہے۔ آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد آٹھ سو سے ایک ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ آپ کی پہلی تصنیف “زیروبم” اور آخری تصنیف “البوادر والنوادر” ہے۔ آپ نے سیرت النبی پر بھی ایک یادگار وقیع تصنیف “نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب” چھوڑی ہے۔ جس میں آپ نے تقریباٰ پچاس عنوانات کے تحت سیرت طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا ظفر احمد عثمانی نے پڑھائی اور آپ کی آخری آرام گاہ تھانہ بھون کے قبرستان میں ہے۔لنک
حوالہ:MA-94اکبر شاہ نجیب آبادی1875-1938عہندوستان میں تاریخ اسلام لکھنے والوں میں سرفہرست نام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی ہے۔ انہوں نے تاریخ اسلام کی تین جلدیں مرتب کیں۔ اس میں سے پہلی جلد کے دو ابواب کا تعلق سیرت پاک سے ہے جن میں ابتدائے اسلام سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ کے بارے تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔لنک
حوالہ:MA-95الحلبیؒ 664ھ-741ھامام قطب الدین عبد الکریم بن محمد الجماعیلی ،الحلبی ﷫،الحنبلی نے “السیرۃ النبویہ لعبد الغنی المقدسی (600ھ) کی شرح دو جلدوں میں کی اور اس کا نام “المورد العذب الھنی فی الکلام علی سیرۃ عبد الغنی”رکھا۔لنک
حوالہ:MA-96الخلاطیؒ708ھعلی بن محمد الحسن الخلاطی الملقب بالقادوسی ۔فقہ حنفی کے مشہور عالم تھے “شرح الھدایہ للمرغینانی “ان کی مشہور کتاب ہے۔انہوں نے سیرت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جو “سیرت مغلطائی ” کے نام سے مشہورہے۔لنک
حوالہ:MA-97الدمیاطیؒ613ھ-705ھعبد المؤمن بن خلف الدمیاطی کی تصنیف کا نام “المختصر فی سیرۃ سید البشر”ہے۔اکثر کتابوں میں اس کے حوالے آتے ہیں ۔یہ تقریبا ایک سو صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ کے کتب خانہ میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔لنک
حوالہ:MA-98الذھبیؒ673ھ-748ھشمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد الذھبی کی” کتاب المغازی” معروف ہے جو دراصل ان کی “تاریخ الاسلام ” کی پہلی جلد ہے جسے الگ سے شائع کیا گیا ہے ۔لنک
حوالہ:MA-99الزرقانیؒ  1055ھ- 1122ھآپ کا نام محمد ابن عبد الباوی بن یوسف زرقانی المالکی تھا۔اپنے عہد کے عمدہ علماء میں سے تھے ۔ آپ کو حدیث ،فقہ اور اصول میں کمال مہارت تھی[119] ۔ علامہ زرقانی ﷫کی شرح “المواھب اللدنیۃ “[120] سیرت طیبہ پر نایاب علوم کا بیش بہا خزانہ ہے ۔ سیرت نبویہ پر علامہ عبد الرحمان سہیلی کی تصنیف الروض الانف ” کے بعد آپ کی کتاب سب سے زیادہ مستند،جامع اور محققانہ تصانیف میں سے ہے۔لنک
حوالہ:MA-100العامری الحرضیؒ 816ھ-893ھابو زکریا یحیی بن ابی بکر بن محمد بن یحیی العامری ،الحرضی ،الیمانی ،الشافعی۔ آپ یمن کے نامور محدث حافظ اور مؤرخ تھے۔آپ کی سیرت کی کتاب “بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل فی تلخیص المعجزات والسیر والشمائل ” کو بہت شہرت ملی ہے ۔یہ متوسط ضخامت کی قابل قدر تصنیف ہے جو سیرت اسماء وصفات اور شمائل وفضائل کے مباحث پر مشتمل ہے۔لنک
حوالہ:MA-101المحب الطبریؒ 615-694ھمحب الدین ابو العباس احمد بن محمد الطبری﷫ نے سیرۃ نبوی ﷺ کی 12 مختلف تصانیف کا خلاصہ تیار کیا۔یہ کتاب خلاصۃ سیر سید البشرکے نام سے معروف ہوئی ۔اور یہ کتاب 1343ھ میں دہلی پرنٹنگ پریس ہندوستان سے طبع ہوئی۔لنک
حوالہ:MA-102المناویؒ952ھ-1031ھآپ کا نام عبد الرؤف بن زین الدین حداوی المناوی تھا ۔آپ نے اپنے زمانے میں نہایت قابل قدر مشائخ سے علم حدیث حاصل کیا اور بہت سے علوم اور معارف کوجمع کیا۔ عبدالرؤف المناوی نے مشہور محدث زین الدین العراقی کی منظوم سیرت طیبہ “الدرر السنیۃ ” پر بسیط شرح مرتب کی ۔اس کے بعد آپ نے اس شرح کی مزید تلخیص کر کے اس کو “الفتوحات السبحانیۃ فی شرح نظم الدرر السنیۃ للعراقی ” کے نام سے موسوم کیااور آپ کی یہ تصنیف بھی طبع شدہ ہے۔ ۔سیرت نبویہ پر آپ نے “الروض الباسم فی شمائل المصطفی ابی القاسم ” کے نام سے ایک تصنیف بھی مرتب کی ہے۔لنک
حوالہ:MA-103النوویؒ631ھ-676ھاابو زکریا یحیی بن شرف النووی﷫ کی “السیرۃ النبویہ “عبد الرؤف علی اور بسام عبد الوہاب الجابی کی تحقیق سے دار البصائر دمشق سے 1400ھ بمطابق 1980ء میں شائع ہوئی ہے ۔یہ کتاب بھی مختصر ہے اور فہارس سمیت 95 صفحات پر مشتمل ہے ۔لنک
حوالہ:MA-104بدرالدین محمود عینی متوفی 855ھمؤرخ، علامہ،اور بڑے محدثين۔ میں شمار کیے جاتے ہیں حلب سے تعلق تھا جبکہ ان کی ولادت عين تاب میں ہوئی اسی کی طرف نسبت سے عینی کہلاتے ہیںلنک
حوالہ:MA-105برہان الدین البقاعیؒ885ھابراہیم بن عمر بن حسن الرباط بن علی بن ابی بکر البقاعی ،ابو الحسن ،برہان الدین۔آپ عظیم مؤرخ اور ادیب تھے۔ سیرت پر “جواہر البحار فی نظم سیرۃ المختار” اور “مختصر سیرۃ الرسول وثلاثۃ من الخلفاء الراشدین “انکی اہم تصانیف ہیں۔ آخر الذکر کتاب کا ایک قلمی نسخہ رئیس الکتب کتب خانہ میں موجود ہے۔لنک
حوالہ:MA-106برہان الدین الحلبیؒ753ھ-841ھابراہیم بن محمد بن خلیل الطرابلسی ،الحلبی ،ابو الوفاء ،برہان الدین۔آپ علوم حدیث اور رجال کے عالم تھے۔۔علامہ برہان الدین حلبی نے “نورالنبراس فی شرح سیرۃ ابن سید الناس” کے نام سے “عیون الاثر ” کی نہایت محققانہ شرح لکھی ۔یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور مفید معلومات کا ایک خزینہ ہے ۔ندوۃ کےکتب خانہ میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔لنک
حوالہ:MA-107پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی0آپ نے بچوں کے لیے مختصر تالیف “رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے سپرد قلم کی جو کہ نوے صفحات پر مشتمل ہے اور اسے مکتبہ جام نور نئی دہلی نے شائع کیا۔لنک
حوالہ:MA-108تقی الدین المقریزیؒ 766ھ-845ھاحمد بن علی تقی المقریزی﷫ عظیم مؤرخ تھے ۔قاہرہ میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی ۔ان کی معروف کتاب “امتاع الاسماع بما للرسول من الابناء والاموال والحفدۃ والمتاع” سیرت نبوی ﷺ کے واقعات پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب 6 جلدوں میں ہے۔ ۔حاجی خلیفہ نے اسے بہت عمدہ تصنیف قرار دیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-109جلال الدین السیوطیؒ 849ھ-911ھآپ کا نام عبد الرحمان بن ابو بکر جلال الدین اور کنیت ابو الفضل تھی ۔ آپ اپنے زمانے کے نہایت مشہور امام ،مؤرخ ،ادیب ،حافظ اور مصنف تھے ۔”الاعلام ” میں علامہ زرکلی نے لکھا ہےکہ جلال الدین سیوطی نے تقریبا چھ سو کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر آپ کی تالیف”الخصائص الکبری” نہایت مشہور ومقبول ہے ۔لنک
حوالہ:MA-110حافظ عبدالرزاق حافظ باقوی0آپ کا شمار تامل ناڈو کے معدودے چند شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ نے ایم اے اور ایم فل کی اسناد مدراس یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ آپ کی غزلیات کا مجموعہ “بہار سخن” نعتوں کا مجموعہ “ذکر حبیب” اور شعری مجموعہ “نور علی نور” چھپ چکے ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے ادب کی تخلیق پر خصوصی توجہ دی۔ سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی منظوم تصنیف “قمرنامہ اسلام” ہے جو کہ تقریبا ڈیڑھ ہزار اشعار پر مشتمل اور آپ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔لنک
حوالہ:MA-111حافظ علاء الدین مغلطائی متوفی 762ھآپ اپنی تصنیف شرح سنن ابن ماجہ کی نسبت سے مشہور و معروف ہیںلنک
حوالہ:MA-112حشمت النساء بیگم0آپ مولانا مسلم ویلوری کی اہلیہ تھیں اسی نسبت سے خیال کیا جاتا ہے کہ آپ کا تعلق بھی جنوبی ہند کے علاقہ ویلور سے ہو گا۔ آپ نے بچوں کے لیے “سیرت رسول” تصنیف کی جو کہ ریاست کرناٹک کے ہائی سکول کے نویں جماعت کے نصاب میں 1962-63 سے پڑھائی جاتی رہی۔ یہ کتاب تقریبا سو صفحات پر مشتمل تھی۔لنک
حوالہ:MA-113حفیظ جالندھری1900-1982عآپ بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے، جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیاء کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان اور آزاد کا کشمیر کا قومی ترانہ تخلیق کرنا  ہے-لنک
حوالہ:MA-114حکیم شرافت حسین رحیم آبادی0 “حیات النبی”آپ کی بچوں کے لیے لکھی گئِ مختصر تالیف ہے جو 80 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے منظور بک ڈپو دہلی بھارت نے شائع کیا- مولف کا ارادہ ایسی سیرت نبوی لکھنے کا تھا جو مسلمان بچوں اور طالب علموں کے لیے مفید اور اتنی مختصر ہو کہ بچوں کے لیے اس مطالعہ گراں نہ گزرے۔لنک
حوالہ:MA-115خالد مسعود1936-2003آپ کا تعلق قصبہ للہ { Lillah } تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم سے تھا جہاں اعوان قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ثنادھا ا ٓباد ہے۔ ایک روایت کے مطابق ثنادھا، اس خاندان کے ایک بزرگ ثناء اللہ کے نام پر موسوم ہے۔ آپ میٹرک تک بھیرہ میں زیر تعلیم رہے۔ ایف ایس سی سرگودھا سے کیا۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی (کیمسٹری) اسلامیہ کالج ریلوے روڈلاہور اور ایم اے (اسلامیات) پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ اعلیٰ فنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1964ء میں انگلستان چلے گئے جہاں آپ اسلامک مشن، لندن کے صدر منتخب ہوئے۔ کنگز کالج، لندن سے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔ اور گورنمنٹ انڈسٹریل ریسرچ لیبارٹری، لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر انڈسٹریز ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں قائد اعظم لائبریری، لاہور میں بطور علمی محقق تعینات ہوئے۔ آپ مولانا امین احسن اصلاحی کے عزیز ترین شاگرد تھے۔ ۔ تدبر قرآن کی تقریباً تمام جلدوں کی پروف ریڈنگ علامہ مرحوم نے کی۔   کم و بیش 22 سال سہ ماہی رسالہ ’’تدبر‘‘ لاہور کے ذریعے مولانا اصلاحیؒ اور امام فراہیؒ کے افکار، نظریات اور خیالات کی ترویج کی۔ ’’حیات رسول امیﷺ‘‘ آپ کی سیرت نبوی پر گراں قدر تصنیف ہے۔لنک
حوالہ:MA-116خواجہ شمس الدین عظیمی1927-سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ، روحانی اسکالرخواجہ شمس الدین عظیمی، ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی اور ماہنامہ قلندر شعورکے چیف ایڈیٹر ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات اور میگزین میں روحانی ڈاک، خواب کی تعبیر، قارئین کے مسائل اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کالم لکھے۔ سیرت طیبہ حضرت محمدمصطفی ﷺ، روحانیت، پیراسائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر70کتابیں تصنیف کیں اور60کتابچے تحریر کیے ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی (ملتان)میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہیں۔ روحانی علوم کے فروغ اور عوام الناس کے بہبود کے لیے دنیا بھر میں روحانی مراکز اور پاکستان میں اسکول اور کالج، لائبریریاں  اور ہسپتال قائم ہیں۔لنک
حوالہ:MA-117دانش فرازی0آپ کا اصل نام بانگی عبدالقادر تھا۔ آپ کا تعلق آمبورجنوبی ہندوستان سے تھا۔ مادری زبان اردو نہ ہونے کے باوجود اہل علم میں آپ کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مولانا نیاز فتح پوری، ڈاکٹر وزیر آغا اور خلیل الرحمان اعظمی جیسے اساتذہ نے آپ کی تحسین کر رکھی ہے۔ آپ نے پانچ شعری اور ایک نثری تصنیف یادگار چھوڑی ہے۔ ان میں “آیات فطرت” جو ایک طویل اور منظوم تفسیر سورۃ فاتحہ ہے۔ اور “محسن اعظم” منظوم حیات مبارکہ ہے۔لنک
حوالہ:MA-118ڈاکٹر محمود احمد غازی1950-2010عآپ ایک نامور بین الاقوامی اسلامی اسکالر تھے۔دور جدید کے مسائل پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی۔ آپ وفاقی وزیر مذہبی امور۔ صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد۔ ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔ ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔ جج شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان۔ خطیب شاہ فیصل مسجد،اسلام آباد۔ رکن اسلامی نظریاتی کونسل وغیرہ اہم ترین مناصب پر فائز رہے۔ آپ نے پاکستان مدرسہ بورڈ قائم کیا اور اس کے پہلے چیئرمین رہے۔ڈاکٹر صاحب اردو ،عربی، فارسی،انگریزی،فرانسیسی سمیت سات زبانوں کے ماہر تھے اور ان زبانوں میں تحریر اور گفت گو دونوں کا مکمل ملکہ رکھتے تھے.اردو داں طبقے میں ڈاکٹر صاحب کا سلسلہ محاضرات بڑا مقبول ہوا۔ جس کی چھ جلدیں اہل علم کو متاثر کرچکی ہیں۔ ان میں سے ہر جلد 12 خطبوں پر مشتمل ہے، جن کے موضوعات یہ ہیں: قرآن ،حدیث، سیرت، فقہ، شریعت، معیشت وتجارت۔لنک
حوالہ:MA-119ڈاکٹر مصطفٰے سباعی1915-آپ حمص میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن اپنے والد کی نگرانی میں کیا ۔ اس کے بعد الازہر سے “اسلامی قانون سازی اسر اس کی تاریخ” میں پی ایچ ڈی کی۔ آپ شام میں اخوان المسلین کے بانی تھے۔ آپ شام میں فرانسیسوں سے آزادی کی مسلح جدوجہد میں بھی شامل رہے۔ آپ شام کی پارلیمنٹ میں پارلیمانی امور کے نائب صدر بھی رہے۔ آپ نے مستشرقین کے محاکمے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ گولڈ زیہر ، مرجلیوث اور شاخت جیسے مستشرقین کے کام پر آپ کا نقد ایک سرمایہ علمی ہے۔ “سیرت النبی” آپ کی ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو آپ نے دمشق کالج کے طلبا و طالبات کے سامنے کیں۔ انہیں اردو کا جامہ ان کے شاگرد مزمل حسین فلاحی نےپہنایا اور ہندوستان پبلی کیسنز دہلی نے 1987ء میں شائع کیا۔لنک
حوالہ:MA-120ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی1944-2020پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی مشہور سیرت نگار اور مؤرخ، دار العلوم ندوۃ العلماء کے فاضل تھے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا میں شعبہ اسلامیات کے ڈائریکٹر تھے۔ آپ کو بابائے سیرت کے خطاب سے بھی جانا جاتا ہے۔لنک
حوالہ:MA-121زیاد بن عبد اللہ بن طفیل البکائیؒ183ھ آپ ابن اسحاق ﷫کے شاگرد اور ابن ہشام ﷫کے استاذ تھے۔آپ ابن اسحاق کی سیرت کے کتاب کے سب سے معتبر راوی ہیں۔لنک
حوالہ:MA-122سرسید احمد خان1817-1898سر سید احمد خان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی تھے۔ انھوں نے سیرت النبی پر دو کتابیں چھوڑی ہیں۔ اول جلاء القلوب بذکر المحبوب جو 1842ع میں دہلی سے شائع ہوئی اور دوم ولیم مور کی بدنام زمانہ تصنیف “The Life of Muhammad” کے جواب میں بنام “الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ” جو عرف عام میں “خطبات احمدیہ کے نام سے منسوب ہے۔[ماخوذ:بیسویں صدی میں ہند کے سیرت نگار]لنک
حوالہ:MA-123سلمہ بن فضل الابرش الانصاریؒ191ھ آپ ابن اسحاق کے شاگرد تھے اور آپ بھی صاحب المغازی ہیں آپ نے ابن اسحاق﷫سے “المبتداء والمغازی “روایت کی تھی.لنک
حوالہ:MA-124سلیمان سلمان منصورپوری1867-1930عآپ منصور پور سابق ریاست پٹیالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم والد قاضی احمد شاہ سے حاصل کی جو ریاست پٹیالہ میں نائب تحصیلدار تھے سترہ سال کی عمر میں مہندرا کالج پٹیالہ سے منشی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے۔ اس کے بعد انہوں نے ریاست پٹیالہ میں محکمہ تعلیم ،مال اوردیوانی میں ملازمت اختیار کی۔ اپنی قابلیت و صلاحیت ترقی کرتے ہوئے 1924ء میں سیشن جج مقرر ہو گئے ۔ بحیثیت جج انتہائی مصروف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ علمی اور تصنیفی کام کرتے تھے بلکہ روزانہ درسِ قرآن بھی دیتے تھے۔ متعدد عیسائیوں اور پادریوں سے مناظرے بھی کیے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں سید البشر، اسوہ حسنہ، مہر نبوت، رحمۃ للعالمین ہیں۔آپ دوسرے حج سے واپسی پر جدہ کی بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر بحری جہاز میں عازم عدم ہوئے۔لنک
حوالہ:MA-125سید ابوالحسن علی ندوی1914-1999عآپ کا شمار عصر حاضر کی موقر ترین مسلمان شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ علی میاں  کے نام سے معروف رہے۔ آپ  انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر کے مصنف نیز متعدد زبانوں میں پانچ سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ یہ تصانیف تاریخ،  الہیات،  سوانح کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین اور تقاریر بھی موجود ہیں۔ علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں اس کا ترجمہ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر کے نام سے شائع ہوا۔ اخوان المسلمون کے ایک رکن سید قطب نے اس کتاب پر مقدمہ لکھا جس میں انہوں نے خصوصا علی میاں کی استعمال کردہ اصطلاح جاہلیت کی تعریف کی جسے علی میاں نے کسی عہد کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ اسے مادیت اور اخلاقی زوال کا استعارہ بتایا ہے۔لنک
حوالہ:MA-126سید امین الحسن فاروقی0 “محمد رسول اللہ”صلی اللہ علیہ وسلم مختصر سیرت نبوی کے زمرہ میں ایک اہم کتاب ہے جو 187صفحات پر مشتمل اور دہلی سے 1997میں چھپی۔لنک
حوالہ:MA-127سید سلیمان ندوی1884-1953عمولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم سید ابو الحسن ایک صوفی منش انسان تھے۔ تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربھنگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ آپ نے سیرۃ النبی کی آخری چار جلدیں مکمل کیں۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ، معارف جاری کیا۔لنک
حوالہ:MA-128سید عابد علی وجدی الحسینی1918-1990عابتدائی تعلیم اپنے جد امجد سید شاکر علی سے حاصل کی، جو شیریں رقم کے شاگرد تھے اور شیریں رقم زمرد رقم {میر پنجہ کش دہلوی استاذ بہادر شاہ ظفر} کے شاگرد تھے، مدارس احمدیہ و سلیمانیہ میں اردو ، فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مولانا رشید احمد گنگوہی کے چہیتے شاگرد قاضی محمد حسن مرادآبادی نے فقہ کی ابتدائی تعلیم دی اور کم عمری کی بناپر “مولوی مختصر” کا خطاب دیا۔ دار العلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ، شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی ، شیخ روحانیت میاں اصغر حسین صاحب، شیخ المعقول علامہ ابراہیم بلیاوی ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی ، شیخ المعانی والبدیع علامہ عبد السمیع اور فقیہ الامت مفتی محمد شفیع صاحب سے کسب فیض فرمایا۔ خانقاہ مجددیہ میں شاہ محمد یعقوب نقشبندی کے یہاں ختم خواجگان میں پابندی سے حاضر ہوتے ،1935ء میں حکیم الامت تھانوی کی خانقاہ امدایہ میں حاضر ہوئے، حضرت نےدعاوں سے نوازا، تعلیم باطنی کے لیے حضرت شیخ مدنی سے رشتہ استوار کیا اور کچھ مدت ذکر و اذکار میں رہے ۔اخیر میں حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی سے رشتہ ارادت جوڑا اور حضرت سے خلافت بھی پائی۔وفات تک بھوپال کے باجبروت وصاحب اختیار قاضی رہے۔آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سیرت پر آپ کی تصنیف منظوم”سیرت النبی ” ہے جو 1940میں وجدی پبلی کیشنز بھوپال نے شائع کی۔ [خود نوشت سید وجدی الحسینی از کتاب قطب مالوہ ( عزیر فلاحی )]لنک
حوالہ:MA-129شاہ عبدالحئی احقر بنگلوری1232ھ تا۔۔۔آپ کا اصل نام بڈھن بیگ تھا۔ آپ 1232ہجری میں بنگلور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قاری سید باقر اور مولوی سید غوث صاحب سے حاصل کی۔ ویلور کے مدرسہ لطیفیہ سے درس نظامیہ کی تکمیل کی جو کہ جنوبی ہند کا ایک عظیم الشان مدرسہ ہے۔آپ نے ہر علمی میدان میں گھوڑے دوڑائے اور تصانیف کا ایک گرانقدر ذخیرہ چھوڑا۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق “جنان السیر” خلفائے راشدہ سے متعلق “حدیقیتہ الاحباب”، اہل بیت سے متعلق “روضتہ الابرار” سیدنا حسن و حسین سے متعلق “قرۃ العینین”، گلشن غم اور آئمہ کبار سے متعلق “تذکرۃ المحدثین” شامل ہیں۔ لنک
حوالہ:MA-130شبلی نعمانی1857-1914علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔لنک
حوالہ:MA-131شرجیل بن سعد متوفی 123ھ)انکی کنیت ابو سعد ہے انصار کے آزاد کردہ غلام ہیں مغازی اور اہل بدر کے حالات و کوائف کے عالم تھے۔لنک
حوالہ:MA-132شمس الدین محمدؒ 942ھآپ شافعی مسلک کے نہایت معروف محدث،مؤرخ اور سیرت نگار تھے۔ آپ کی نہایت مقبول تصنیف “سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ” ہے جو کہ آپ کے نسبت سے بھی مشہورہے یعنی “السیرۃ الشامیۃ “سے متاخرین سیرت نگاروں میں آپ کی یہ کتاب نہایت مبسوط اور مرتب کتاب شمار کی جاتی ہے۔لنک
حوالہ:MA-133شہاب الدین القسطلانی 851ھ-923ھعلامہ قسطلانی نے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں وفات پائی ۔آپ مصر کے بلند پایہ محدثین ،فقہاء ،اور مصنفین کے فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ۔سیرت نبویہ پر آپ کی تصنیف “المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ فی السیرۃ النبویۃ”ہے ۔اردو میں دو جلدوں میں “سیرۃ محمدیۃ “کے نام سے عبد الجبار خان نظامی نے اس کا بہترین ترجمہ کر کے اس کو شائع کیا ہے۔لنک
حوالہ:MA-134شیخ عبدالحق محدث دہلوی1551-1642عآپ کا اسم گرامی عبدالحق بن سیف بن سعد اللہ ترک دہلوی بخاری تھا۔ آپ کے آبائو اجداد بخارا سے دہلی آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں 958ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد اورپھر مکہ معظمہ میں شیخ عبدالوہاب متقی سے صحاح ستہ کا درس لیا اور ان کے مرید ہو گئے۔ آپ نے ہندوستان میں حدیث کے خزانے کو وقف عام کیا۔ سیرت النبی پر آپ کی مشہور و معروف تصنیف مدارج النبوت فارسی میں ہے۔ یہ کتاب 1267ہجری میں فخر المطابع دہلی، 1271ہجری میں مظہر العجائب پریس، 1269 ہجری اور 1880میں لکھنئو سے شائع ہوئی۔ اس کے قلمی نسخے انڈیا آفس لائبریری، برٹس میوزم اور جرمنی کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔لنک
حوالہ:MA-135صفی الرحمن مبارک پوری1943-2006عآپ بھارت کے موضع حسین آباد، مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان کی علمی خدمات کو عرب ع وعجم میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ مدرسہ فیض عام سے فارغ التحصیل ہیں۔ اسی مدرسہ میں ایک عرصہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اس کے جامعہ سلفیہ سے منسلک ہو گئے۔ آپ نے اردو اور عربی میں اکیس کتب تحریر فرمائیں۔ “الرحیق المختوم” سیر ت النبی پر آپ کی عالمی انعام یافتہ تصنیف ہے۔لنک
حوالہ:MA-136طالب الہاشمی1923-2008آپ کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد 120 تک پہنچتی ہے۔ ان کی اہم کتابوں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:سیرت طیبہ رحمت دارین ﷺ،حسنت جمیع خصالہ ،اخلاق پیغمبری ،خلق خیر الخلاق ﷺ ،ارشادات دانائے کونین ﷺ ،معجزات سرور کونین ﷺ ،وفود عرب بارگاہ نبوی ﷺ میں ،ہمارے رسول پاک ﷺ ( بچوں کے لیے )،سفر نامہ آخرت ،خلیفہ الرسول ﷺ سیدنا صدیق اکبر ؓ ، تیس پروانے شمع رسالت ﷺ کے،خیر البشر ﷺ کے چالیس جانثار ،سرور کائنات ﷺ کے پچاس صحابہ ؓ،رحمت دارین کے سو شیدائی ،فوز و سعادت کے ایک سو پچاس چراغ شامل ہیں۔لنک
حوالہ:MA-137ظہیر الدین گازرونیؒ611-694ھشیخ ظہیر الدین علی بن محمد بن مسعود گازونی نے سیرت پر ایک کتاب لکھی۔ اس کا نام “المنتقی فی سیرۃ المصطفی ” ہے۔ اسماعیل پاشا نے اس کتاب کا نام “الذردۃ العلیا فی سیرۃ المصطفی “بتلایا ہے۔لنک
حوالہ:MA-138عاشق الٰہی میرٹھی1881-1941آپ میرٹھ میں پیدا ہوئے جس کی نسبت سے نام کے ساتھ میرٹھی استعمال کرتے۔ آپ کو اردو زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کرنے والا سب سے کم عمر مترجم بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے انیس برس کی عمر میں یہ خدمت سرانجام دی۔ آپ بچپن ہی سے غیر معمولی طالب تھے۔ سولہ برس کی عمر میں مولانا میر حسن دہلوی کے ہاتھوں دستار بندی ہوئی۔ آپ حضرت گنگوہی سے تعلق بیعت میں تھے۔ آپ کی مشہور تصنیف “تذکرۃ الخلیل” ہے جس میں مولانا مظفر حسین کاندھلوی، شیخ الہند، شاہ عبدالرحیم رائے پوری، مولانا صدیق احمد، مولانا یحییٰ کاندھلوی کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ سیرت پر آپ کی پہلی کتاب “ماہ تاب عرب” ہے جو 175صفحات پر مشتمل ہے جنہیں چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول میں “نبوت کی ضرورت” باب دوم میں نبی کریم کی آمد سے قبل دنیا اور عرب میں کے حالات اور اس زمانے کے فسادوبگاڑ میں آپ کی بعث پر بات کی گئی ہے، باب سوم میں آپ کی تعلیم و تربیت کا بیان ہے اور باب چہارم میں “تزکیہ نفوس اور تکمیل” کے عنوان کے تحت آپ کی عظمت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لنک
حوالہ:MA-140عاصم بن عمر بن قتادہ متوفی 120ھ) عمر بن عبدالعزیز کے عہد کے معروف عالم فاضل ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حالات و اخلاق اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غزوات و سراپا کے سب سے بڑے ماہر اور فاضل سمجھے جاتے تھےلنک
حوالہ:MA-141عامر بن شراحبیل الشعبیؒ109ھامام شعبی ،صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عامر بن شراحیل الشعبی کو ہی امام شعبی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت عہد فارقی میں21ھ میں کوفہ میں ہوئی۔ اس لحاظ سے آپ تابعی تھے خود فرماتے کہ ’’میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا یعنی ان سے ملاقات کی‘‘۔قرآن کے اتنے ممتاز قاری تھے کہ زعیم القراء کہلاتے تھے۔ لنک
حوالہ:MA-142عامر بن شراحیل امام شعبی متوفی 104ھ)امام شعبی ،صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدثین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عامر بن شراحیل الشعبی کو ہی امام شعبی کہا جاتا ہے۔لنک
حوالہ:MA-143عبد الرحمان السہیلیؒ508ھ-581ھ : ابو القاسم عبد الرحمان السہیلی چھیویں صدی ہجری کے معروف مؤرخ،محدث اور سیرت نگار گزرے ہیں ۔علامہ سہیلی نے سیرت ابن ہشام کی “الروض الانف” کے نام سے ایک شرح مرتب کی جو نہایت مقبول ہوئی. ۔پھر اس کے بعد علامہ مغلطائی (762ھ)نے سیرت ابن ہشام اور الروض الانف کو ملاکر “الزھر الباسم ” کے نام سے ایک تالیف کی ۔اس کتاب کی منقطع احادیث کی علامہ ابن حجر عسقلانی نے تخریج کی ہے۔لنک
حوالہ:MA-144عبد الرحمان بن حبیشؒ504ھ-584ھعبد الرحمان بن محمد بن عبد اللہ الانصاری الاندلسی ،ابو القاسم بن حبیش ۔آپ حدیث ،قرات ،نحو اور لغت کے ائمہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ابن العماد کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی جلدوں میں “کتاب المغازی “تصنیف کی ہے.لنک
حوالہ:MA-145عبد الرحمان بن صقرؒ 454ھ -523ھعبد الرحمان بن محمد بن صقر ، ابو زید انصاری اندلس کے بلند پایہ علماء میں سے تھے ۔سیر ت نبوی ﷺ پر آپ کی دو کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ایک “مختصر السیر والمغازی “اور دوسری “منتخب سیرالمصطفی “ہے.لنک
حوالہ:MA-146عبد الغنی المقدسیؒ 541ھ-600ھابو محمد تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی الحنبلی﷫ نے “الدرۃ المضیہ فی السیرۃ النبویہ”کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔امام ذہبی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک جلد میں “فضائل خیر البریہ “کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کی۔لنک
حوالہ:MA-147عبد اللہ بن ابوبکر بن حزمؒ 135ھ آپ مدینہ منورہ کے مشہور قاضی اور محدث تھے ۔علم سیرت اور فن مغازی میں آپ خاصی شہرت کے حامل تھے ۔آپ کے متعلق یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ آپ نے مغازی رسول پر کوئی کتاب مرتب کی البتہ متعدد سیرت نگاروں نے مثلا:واقدی ،ابن اسحاق،ابن جریر اور ابن سعد نے اپنی تصانیف میں آپ کے حوالہ سے بے شمار روایات نقل کی ہیں جو مغازی رسول کے متعلق ہیں۔لنک
حوالہ:MA-148عبد اللہ بن جعفر بن عبد الرحمان المخزومیؒ 170ھآپ مدینہ کے علماء مغازی میں سے تھےلنک
حوالہ:MA-149عبدالحق محدث دہلوی متوفی 1052ھ پورا نام شیخ ابو المجد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی بخاری ہے، مغلیہ دور میں متحدہ ہندوستان کے مایہ ناز عالم دین اور محدث تھے۔ ہندوستان میں علم حدیث کی ترویج و اشاعت میں آپ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔لنک
حوالہ:MA-150عروہ بن زبیر23-94ھحضرت عروہ بن زبیر کی نسبت اگر دیکھی جائے تو یہ جناب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے بھانجے تھے۔ جناب عروہ بن زبیر کا شمار مدینہ منورہ کے کبار فقہاء کرام میں سے کیا جاتا تھا۔حضرت عروہ نے سیرت کے مغازی کے پہلو کے اعتبار سے جو خدمت سرانجام دی ہے اس کا ذخیرہ کتب سیرت میں موجود ہے ۔مثلا:علامہ ابن اسحاق ،ابن سید الناس ،واقدی اور علامہ طبری نے اپنی تالفات میں حضرت عروہ بن زبیر کی مغازی کے متعلق روایات کو ذکر کیا ہے ۔حضرت عروہ کی تالیف”مغازی رسول اللہ “تو عصر حاضر میں ناپید ہے ۔لیکن اس کے بعض اجزاء کو دکتور مصطفی اعظمی نے مرتب کر کے 1981ء میں شائع کیا اور پھر اس کا اردو ترجمہ لاہور کے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے 1987ء میں شائع کیا[2]۔لنک

Scroll to Top