تڑپ تو رکھتا ہوں۔۔۔

تڑپ تو رکھتا ہوں زاد سفر نہیں رکھتا

کرم حضور کہ میں بال و پر نہیں رکھتا

میں عرض حال کے قابل کہاں مرے آقا

سوائے عجز بیاں، میں ہنر نہیں رکھتا

ستم زدہ ہوں نگاہ کرم کا طالب ہوں

میں بے اماں ہوں کہیں کوئی گھر نہیں رکھتا

مجھے بھی عشق کی سچائیاں میسر ہوں

نثار کرنے کے قابل میں سر نہیں رکھتا

وہ نالہ کھینچتا رہتا ہوں روز و شب آقا

جو شور رکھتے ہوئے بھی اثر نہیں رکھتا

زکوۃ سیرت اطہر کی چاہتا ہے عزیز

گدائے خلق ہے آقا، یہ زر نہیں رکھتا

Scroll to Top